Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

گزرے ہوئے وقت کے  اس وقت کے جو گزر جاتا ہے اور پھر لوٹ کر نہیں آتا ہے جس کی واپسی کے انتظار میں سب کچھ بدل کر رہ جاتا ہے اور بدلتا ہی رہتا ہے۔

خاصی دیر کے بعد ان کے جذبات کی طغیانی میں ٹھہراؤ آیا تھا اور پری بھی دل کی بھڑاس نکال کر پرسکون ہو گئی تھی  کل رات طغرل سے اس جھڑپ کے بعد وہ مثنیٰ سے بدظن ہو گئی تھی۔

”اب آپ آرام کرو یہ اتنی پیاری پیاری آنکھیں رو رو کر خراب کرنے کا ارادہ ہے  بس اب کبھی مت رونا۔
“ نانو نے اس کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے محبت سے کہا۔

“لنچ میں کیا کھاؤ گی  بتاؤ مجھے میں اپنے ہاتھوں سے بناؤں گی۔“ مثنیٰ نے بھی مسکرا کر ماحول کی تلخی کو دور کرتے ہوئے پوچھا۔

”کچھ بھی بنا لیں  میں فرمائش نہیں کرتی کبھی بھی۔
(جاری ہے)

“ اس کی بات پر پھر مثنیٰ کے چہرے پر سایہ سا لہرایا تھا۔

”مجھے معلوم ہے پری کو کیا پسند ہے آؤ مثنیٰ! میں تمہاری مدد کرواتی ہوں  پری آپ کچھ دیر آرام کر لو بیٹا!“ وہ باہر چلی گئی تھیں۔

پری کچھ دیر تک غائب الدماغی سے خلاؤں میں گھورتی رہی پھر گہری سانس لے کر لیٹ گئی۔ اسی پل موبائل پر بیل ہونے لگی تو اس نے چونک کر دیکھا اور اسکرین پر طغرل کا نام دیکھ کر اس کے چہرے پر ناگواری کے رنگ ابھرے تھے اور اس نے لائن ڈسکنیکٹ کر دی تھی مگر دوسری طرف بھی کوئی عام شخص نہ تھا وہ اس وقت تک کال کرتا رہا تھا جب تک اس نے کال ریسیو نہ کر لی تھی۔

”یس…!“ اس نے دانت بھینچتے ہوئے کہا۔

”تم نے انکار کر دیا تھا یہاں آنے سے پھر اس طرح یہاں آنے کا مطلب کیا ہے تمہارا؟ کیوں گئی ہو وہاں اتنی ایمرجنسی میں کہ تم سے صبح تک کا بھی انتظار نہ ہو سکا تھا۔“ وہ سخت لہجے میں استفسار کر رہا تھا۔

”آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے اس طرح پوچھ گچھ کرنے والے؟ میں دادی جان کی اجازت سے آئی ہوں  بھاگ کر نہیں آئی ہوں۔
“ وہ ترکی بہ ترکی اسی انداز میں گویا ہوئی۔

”جانتا ہوں میں تم کس طرح گئی ہو؟ اور کیوں گئی ہو… مگر میں چاہتا ہوں تم فوراً واپس آ جاؤ  ابھی اور اسی وقت…“ اس کا لہجہ جب دھونس بھرا حکمیہ انداز لئے ہوئے تھا۔

”میں نہیں آؤں گی۔“

”تم سمجھی کیا ہو خود کو پارس؟“ وہ جھجلا اٹھا۔

”میں ”لوٹ“ کا مال نہیں ہوں جس پر ہر کوئی اپنا حق جتائے۔

”وہاٹ…! تمہارا دماغ خراب ہو چکا ہے تمہیں بات کرنے کا سینس ہی نہیں رہا ہے۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں…؟“ اس کی طیش میں ڈوبی خفگی بھری آواز سنائی دی۔

”سچ سننے کا اس کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہر کسی میں نہیں ہوتا  آپ میں بھی نہیں ہے؟ ویسے تو آپ خود کو بے حد بہادر سمجھتے ہیں۔“ وہ استہزائیہ لہجے میں گویا ہوئی۔

”سچ کو اگر سچائی کے ساتھ ہی بولا جائے تو سچ مانا جاتا ہے۔
تم بے معنی اور فضول اپنی ذہنی افترا کو سچائی ثابت کرکے دکھاؤ تو میں مان لوں گا  تم سچ کہہ رہی ہو۔“

”میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی طغرل بھائی!“

”میں نے کب کہا تم بحث کرو۔“

”پھر کال کرنے کا مقصد؟“

”گھر آ جاؤ شرافت سے۔“

”یہ رعب آپ اپنی ان کزنز پر ڈالئے تو زیادہ سود مند ہوگا جو آپ کی کسی بھی بے تکلفی اور مذاق کو مائنڈ نہیں کرتیں۔
میں اس وقت تک گھر نہیں آؤں گی جب تک آپ اس گھر میں موجود ہیں۔“ اس نے بے حد سفاکی سے کہہ کرلائن ڈسکنیکٹ کر دی تھی۔ اس کے چہرے پر طمانیت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی تھی وہ تصور میں طغرل کو غصے سے پاگل ہوتے دیکھ رہی تھی۔

اس کی اس بات نے اس کے پتنگے لگا دیئے ہوں گے اور وہ غصے و جنون میں کسی گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہا ہوگا۔

وہ لاشعوری طور پر منتظر رہی کہ وہ ری کال کرے گا اور غصے سے برسے گا کہ وہ کون ہوتی ہے اس کو دادی جان کے گھر سے جانے کیلئے کہنے والی… مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اس کی کال نہیں آئی تھی۔

وہ بھی سو گئی تھی اور خاصی دیر بعد سو کر اٹھی تو طبیعت خاصی فریش تھی۔ وہ کمرے سے نکل کر لیونگ روم میں آ گئی جہاں مما اور نانو باتوں میں مصروف تھیں مگر ان کے انداز میں اداسی و رنجیدگی سی تھی۔

”سوری مما  سوری نانو! مجھے غصہ آ گیا تھا میں شرمندہ ہوں اپنے رویئے پر…“ وہ ان کے قریب بیٹھ کر شرمندگی سے گویا ہوئی۔

”تم نے کوئی بات نہیں کی پری! جو مجھ سے ہوا وہ میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی  اس کا احساس مجھے مرتے دم تک رہے گا۔

“ مثنیٰ نے پری کو محبت سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔

###

وہ وین سے اتر کر چند قدم ہی چلی تھی جب اچانک ہی قریب سے گلفام نمودار ہوا تھا وہ آگے پیچھے کا جائزہ لیتا ہوا اس کی طرف آیا تھا۔

”آج تو کافی جلدی آ گئی ہو رخ!“ وہ مسکرایا۔

وہ اپنی دور اندیشی کو شاباش دے رہی تھی کہ وہ آج کل اعوان سے کم سے کم مل رہی تھی اور جب بھی ملتی تھی واپسی میں کار سے دو اسٹاپ قبل ہی اتر کر وین میں یہاں تک آتی تھی۔

”میں نے بتایا تھا ناں وین کبھی جلدی ملتی ہے اور کبھی دیر میں پھر آج کل ایکسٹرا کلاسز بھی نہیں ہو رہی ہیں۔“ خلاف توقع اس کے ساتھ اس کا موڈ بھی اچھا ہوتا جا رہا تھا  وہ اس سے مسکرا کر نرمی سے بات کرنے لگی تھی۔

”اچھا لاؤ  یہ بیگ مجھے دے دو میں اٹھا لیتا ہوں  تم آرام سے چلو۔“ اس نے بڑی محبت سے بیگ پکڑا تھا۔

”یہ بیگ تو میں روز اٹھاتی ہوں  تمہارے ایک دن کے اٹھانے سے میرا کیا فائدہ ہوگا؟ کل پھر مجھے ہی اٹھانا ہوگا۔

”اب یہ بیگ میں ہی پکڑوں گا تمہیں اب وین میں دھکے بھی نہیں کھانے پڑیں گے  آرام سے آؤ گی اور آرام سے جاؤں گی۔“ وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا ذو معنی لہجے میں کہتا ہوا چل رہا تھا۔

”اچھا… تم کار لے رہے ہو؟“ وہ طنزاً بولی۔ لمحے بھر کو وہ بھونچکا رہ گیا تھا ایک ترچھی نگاہ اس کے چہرے پر ڈال تھی  پھر خفیف سی مسکراہٹ سے گویا ہوا۔

”چار پہیوں والی نہیں  دو پہیوں والی اسکوٹر خرید رہا ہوں میں تمہارے لئے تاکہ تمہیں بسوں اور وین کے دھکے نہ کھانے پڑیں۔“ وہ خوشی خوشی بتا رہا تھا اور اس کے اندر ایک وحشت بھر اضطراب تیزی سے پھیلتا چلا گیا تھا کہ اس طرح تو سارے خواب بکھر جاتے  ساری تمنائیں ناتمام ہی رہتیں اعوان سے ملنے کا صرف خواب دیکھا جا سکتا تھا پھر…

”ارے تم اتنی خاموش کیوں ہو گئی ہو؟ کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی یہ سن کر…؟“ گلفام نے اس کی خاموشی کو محسوس کرکے پوچھا۔

”سارے سوال راستے میں ہی پوچھ لو گے کیا  گھر جا کر نہیں پوچھ سکتے ہو؟“

”معاف کرنا  بھول گیا۔ ہاں ہاں گھر جا کر بات کرتے ہیں۔ آج گھر میں امی ابا  تایا تائی سے کوئی بہت ہی خاص بات بھی کرنی ہے۔“

###

”نانسینس گرل!“ اس نے غصے سے موبائل کو دور اچھال دیا تھا اور دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔ پری اس کی سوچوں کی ضد ثابت ہو رہی تھی اور اس کو یقین ہو چکا تھا وہ شدید ترین اوور کانفیڈنس کا شکار تھی اور اسی طرح اس کے گھر میں رہنے کے بھی خلاف تھی۔

ان کے درمیان جاری رسہ کشی بڑھتی جا رہی تھی ایک سرا اس نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا تو دوسرے سرے پر اس کی گرفت بھی کچھ کم نہیں تھی۔ اس میں ایک کو شکست لازمی تھی اور اس نے خاموشی سے شکست قبول کر لی تھی۔ فیصلہ کر لیا تھا وہ گھر چھوڑ دے گا  ویسے بھی ان کا ارادہ تھا مما اور ڈیڈی کی واپسی کے بعد علیحدہ گھر لینے کا اس نے سوچا تھا وہ اب پہلی فرصت میں کوئی شاندار سا بنگلہ خریدے گا۔

”ارے پری… اوہ پری!“ دادی جان کی آواز پر وہ پھرتی سے کمرے سے باہر نکلا تھا  وہ بے دھیانی میں اس کو آوازیں دیتی وہاں تک آئی تھیں۔

”دادو! پری تو نانو کے ہاں گئی ہوئی ہے نا!“ وہ ان کے قریب آ کر گویا ہوا تھا۔

”لو میں بھول ہی گئی بیٹا! وہ گھر میں نہیں ہے۔“ یاد دلانے پر وہ شرمندہ سی ہو کر گویا ہوئی تھیں۔

”دادو! کوئی کام ہے؟ کچھ چاہئے آپ کو مجھے بتایئے۔


”پری ایک دن بھی گھر میں نہ ہو تو گھر الٹ کر رہ جاتا ہے  نوکروں کے بھی مزے آ جاتے ہیں۔ صباحت اور بچیوں کو تو کوئی غرض ہی نہیں ہے مجھ سے  مجال ہے جو صبح سے پلٹ کر پوچھا ہو کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت ہے یا نہیں؟“ وہ حسب عادل بولتی ہی چلی گئیں۔

”آپ ہائپر مت ہوں دادی جان! آپ اپنے کمرے میں چلیں۔“ وہ ان کو بازو کے گھیرے میں لے کر کمرے میں آیا اور بولا۔
”آپ یہاں آرام سے بیٹھیں  آپ کو چائے چاہئے؟ میں ابھی بنا کر لاتا ہوں  آج میرے ہاتھ کی چائے پی کر دیکھیں کیسی زبردست ہوتی ہے۔“ وہ ان کی طلب سمجھ گیا تھا۔

”ارے تم کہاں بناؤ گے  میں ابھی عادلہ یا عائزہ سے بنوا لوں گی۔“

”مجھے چائے بنانی آتی ہے آپ پی کر بتایئے گا آتی ہے یا نہیں؟“ وہ دس منٹ بعد چائے لے کر حاضر تھا۔

”ارے تم نے تو کمال کر دیا۔
چراغ والے جن کی طرح منٹوں میں چائے بنا کر لے آئے ہو اور چائے بھی بہت مزیدار ہے طغرل!“ پہلا گھونٹ لے کر وہ ستائشی لہجے میں گویا ہوئی۔

”میں تو ایسا ہی کام کرتا ہوں جھٹ پٹ اور مزیدار…“

”اچھا ہے کچن کے کچھ کام مردوں کو بھی آنے چاہئیں محتاجی نہیں ہوتی۔“ وہ آہستہ آہستہ چائے پیتی رہیں پھر اس سے بولیں۔

”پری کو آنے میں ابھی دن لگیں گے وہ بہت دنوں بعد گئی ہے۔
مجھے تم عامرہ کے ہاں لے چلو  یہاں تنہا پڑے پڑے اکتا جاؤں گی  تنہائی سے بڑی وحشت ہوتی ہے مجھے۔“

”آپ کا عامرہ پھوپو کے ہاں قیام کرنے کا ارادہ ہے کیا؟“

”نہیں! رات تک واپس لے آنا  میں یہاں نہیں ہوں گی تو تم پریشان ہو جاؤ گے اور اس خیال سے مجھے نیند بھی نہیں آئے گی۔“ ان کے لہجے کا دبدبہ مفقود تھا چہرے پر بھی عجیب پژمردگی تھی۔
پری کے نہ ہونے سے وہ خود کو زیادہ تنہا محسوس کر رہی تھیں۔ طغرل نے یہ بات بہت شدت سے نوٹ کی تھی۔

”آپ عامرہ پھوپو کے ہاں رکنا چاہیں تو رک جایئے گا دادی جان! میں کوئی بچہ تھوڑی ہوں جو اپنا خیال رکھ نہ سکوں گا۔“ اس نے ان کو بھرپور تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔

”جانتی ہوں بچے نہیں ہو  خیال رکھ سکتے ہو اپنا۔“ وہ دھیمے انداز میں مسکرائی تھیں مگر آج ان کے انداز میں اداسی تھی۔

”آپ تیار ہو جائیں میں لے چلتا ہوں آپ کو۔“ یہ کہہ کر کمرے سے باہر آیا تو سٹنگ روم میں اسے عادلہ مل گئی وہ بیٹھی ہوئی ٹی وی دیکھ رہی تھی  اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔

”آپ کہاں غائب ہیں؟ بہت ہی کم ٹائم دیتے ہیں ہم کو۔“ اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر شکایت کی۔

”میں ان دنوں یہاں بزنس ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کر رہا ہوں۔“

”کیوں کر رہے ہیں آپ اور تاؤ جان یہ سب کچھ جو یہاں بزنس کرنے والے ہیں  لوگ یہاں سے اپنے بزنس کو دوسرے ملکوں میں شفٹ کر رہے ہیں اور عجیب بات ہے آپ لوگ یہاں آ رہے ہیں  جہاں کچھ نہیں ہے۔

”یہاں سے وہ ہی لوگ جا سکتے ہیں جن کو اپنے ملک سے محبت نہیں ہے۔ ایسے لوگ جو اچھے وقت پر یقین نہیں رکھتے  رات کتنی بھی اندھیری ہو  اس رات کا سویرا بہت بہت روشن اور خوشیاں لے کر آتا ہے۔ جو لوگ دکھوں سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ وہ سکھ کی چھاؤں سے بھی محروم رہتے ہیں  یہاں کے حالات سدا ایسے نہیں رہیں گے۔ آنے والا وقت بہت ہی اچھا ہوگا۔

بہت خوش حال ہوگا  انشاء اللہ یہ میرا دل کہتا ہے۔“ اس نے ریموٹ سے ٹی وی آف کرتے ہوئے اتنے پر یقین انداز میں کہا تھا وہ کچھ کہہ ہی نہ سکی۔

”تم کو معلوم ہے پری دادی کے پاس نہیں ہے  تمہیں ان دنوں ان کا اسپیشلی خیال رکھنا چاہئے۔“

”طغرل بھائی! دادی جان نے شروع سے پری کو ہی خود سے قریب رکھا ہے اور اب وہ اس کی اس حد تک عادی ہو گئی ہیں کہ انہیں ہمارا ہونا نہ ہونا محسوس نہیں ہوتا ہے۔
“ وہ شانے اچکا کر بے پروائی سے کہہ رہی تھی طغرل کے وجیہہ چہرے پر ناگواری سی پھیل گئی تھی وہ بنا کچھ کہے وہاں سے اٹھ گیا۔ عادلہ نے گھبرا کر اسے جاتے ہوئے دیکھا پھر اٹھ کر پیچھے آ گئی۔

”طغرل بھائی! طغرل بھائی! آپ مائنڈ کر گئے کیا؟“

”تمہارا خیال ہے تم دادو کے خلاف بولوگی اور میں خوش رہوں گا۔“ وہ سخت ناگواری میں بولا تو عادلہ بری طرح گھبرا گئی۔

”میرا یہ مطلب تو نہیں تھا طغرل بھائی! میں کیوں دادی کے خلاف بولوں گی؟ میں یہ کہہ رہی تھی دادی پری کی جگہ کسی کو بھی نہیں دے سکتی ہیں۔ بھلے ہم کتنا بھی کر لیں ان کیلئے۔“

”جب کسی کیلئے کچھ کیا جاتا ہے تو یہ توقع نہیں کی جاتی کہ ہمیں بدلے میں کچھ ملے محبت اور خلوص تو مشروط نہیں ہوتے ہیں۔“

”اوہ… سوری طغرل بھائی! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہئے۔
آپ ناراض تو نہیں ہیں مجھ سے؟“ اس کے بگڑے تیور دیکھ کر اس نے معافی مانگنے میں عافیت پائی تھی۔

”اٹس اوکے  میں کیوں تم سے ناراض ہوں گا۔“ وہ کوریڈور سے گزر کر اپنے کمرے کے دروازے کے پاس آ کر رک گیا۔

”عائزہ کا خیال رکھنا… وہ اس حرکت کو پھر دہرا سکتی ہے۔“ وہ آہستگی سے گویا ہوا تھا۔

”ارے وہ اب ایسا نہیں کے گی  ممی نے بہت سمجھایا ہے اسے۔“ وہ بولی۔

   3
0 Comments